منظر
رہ گزر، سائے، شجر، منزل ودر، حلقئہ بام
بام پر سینئہ مہتام کھلا، آہستہ
جس طرح کھولے کوئی بندِ قبا، آہستہ
حلقئہ بام تلے ، سایوں کا ٹھہرا ہوا نیل
نیل کی جھیل
جھیل میں چپکے سے تیرا، کسی پتے کا حباب
ایک پل تیرا، چلا ، پھوٹ گیا، آہستہ
بہت اہستہ، بہت ہلکا، خنک رنگِ شراب
میرے شیشے میں ڈھلا
شیشہ وجام ، صراحی، ترے ہاتھوں کے گلاب
جس طرح دور کسی خواب کا نقش
آپ ہی آپ بنا اور مِٹا آہستہ
دِل نے دہرایا کوئی حرفِ وفا، اہستہ
تم نے کہا ، آہستہ
چاند نے جھک کے کہا
“اور ذرا آہستہ”