ابھی تو میں جوان ہوں (حفیظ جالندھری)

 

ہوا بھی خوشگوار ہے

گلوں پہ بھی نکھار ہے

ترنمِ ہزار ہے

بہار پر بہار ہے

کہاں چلا ہے ساقیا

اِدھر تو لوٹ اِدھر تو آ

ارے یہ دیکھتا ہے کیا

اٹھا سُبو سُبو اٹھا

سُبو اٹھا پیالہ بھر

پیالہ بھر کے دے اِدھر

چمن کی سمت کر نظر

سماں تو دیکھ بے خبر

وہ کالی کالی بدلیاں

اُفق پہ ہو گئیں عیاں

وہ اِک ہجومِ میکشاں

ہے سوئے میکدہ رواں

یہ کیا گماں ہے بد گماں

سمجھ نہ مجھ کو ناتواں

خیالِ زہد ابھی کہاں

ابھی تو جوان ہوں

 نہ غم کشود و بست کا

بلند کا نہ پسست کا

نہ بود کا نہ ہست کا

نہ وعدۃ الست کا

امید اور یاس گم

حواس گم قیاس گم

نظر سے آس پاس گم

ہمہ بجز گلاس گم

نہ مے میں کچھ کمی رہے

قدح سے ہمدمی رہے

نشست یہ جمی رہے

یہی ھُماہمی رہے

وہ راگ چھیڑ مطربا

 

طرب فزا، الم ربا

اثر صدائے ساز کا

جگر میں آگ دے لگا

ہر ایک لب پہ ہو صدا

نہ ہاتھ روک ساقیا

پلائے جا پلائے جا

ابھی تو میں جوان ہوں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *