برسوں کے بعد دیکھا اک شخص دلربا سا (احمد فراز)

برسوں کے بعد دیکھا “اک شخص دلربا سا”

اب ذہن میں نہیں ہے پر نام تھا بھلا سا

 

ابرو کچھے کچھے سے آنکھیں جھکی جھکی سی

باتیں رکی رکی سی لہجہ تھکا تھکا سا

 

الفاظ تھے کہ جگنو آواز کے سفر میں

بن جائے جنگلوں میں جس طرح راستہ سا

 

خوابوں میں خواب اس کے یادوں میں یاد اس کی

نیندوں میں گھل گیا ہو جیسے کہ رتجگا سا

 

پہلے بھی لوگ آئے کتنے ہی زندگی میں

وہ ہر طرح سے  لیکن اوروں سے تھا جدا سا

 

اگلی محبتوں نے وہ نامرادیاں دیں

تازہ رفاقتوں سے دل تھا ڈرا ڈرا سا

 

کچھ یہ کہ مدتوں سے ہم بھی نہیں تھے روئے

کچھ زہر میں بجھا تھا احباب کا دلاسا

 

پھر یوں ہوا کہ ساون آنکھوں میں آبسے تھے

پھر یوں ہوا کہ جیسے دل بھی تھا آبلہ سا

 

اب سچ کہیں تو یارو ہم کو خبر نہیں تھی

بن جائے گا قیامت اِک واقعہ ذرا سا

 

تیور تھے بے رُخی کے انداز دوستی کے

وہ اجنبی تھا لیکن لگتا تھا آشنا سا

 

ہم نے بھی اس کو دیکھا کل شام اتفاقاً

اپنا بھی حال ہے اب لوگو فراز کا سا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *