ہم بھی خود دشمنِ جاں تھے پہلے (احمد فراز)

ہم بھی خود دشمنِ جاں تھے پہلے

تم مگر دوست کہاں تھے پہلے

اب وہاں خاک اُڑاتی ہے خزاں

پھول ہی پھول جہاں تھے پہلے

ہم کہ ہیں آج غبارِ پسِ رو

منزلِ ہمسفراں تھے پہلے

اب کسے وضعِ محبت کا خیال

اور ہی لوگ یہاں تھے پہلے

اب تو خود پر بھی نہیں زعمِ وفا

تجھ سے ہم شکوہ کناں تھے پہلے

دولتِ غم تو میسر تھی فراز

اتنے مفلس بھی کہاں تھے پہلے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *