گئی رتوں میں تو شام و سحر نہ تھے ایسے (احمد فراز)

گئی رتوں میں تو شام و سحر نہ تھے ایسے

کہ ہم اداس بہت تھے مگر نہ تھے ایسے

یہاں بھی پھول سے چہرے دکھائی دیتے تھے

یہ اب جو ہیں یہی دیوار و در نہ تھے ایسے

ملے تو خیر نہ ملنے پہ رنجشیں کسی

کس اُس سے اپنے مراسم تھے پر نہ تھے ایسے

ہمیں تھے جو ترے آنے تلک جلے ورنہ

سبھی چراغ سرِ رہگزر نہ تھے ایسے

دلِ تباہ تجھے اور کیا تسلی دیں

ترے نصیب ترے چارہ گر نہ تھے ایسے

فراز خوش ہو کہ احسان اس ستمگر کے

جو تجھ پہ ہیں وہ کسی اور پر نہ تھے ایسے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *