خیال و خواب ہوئی ہیں محبتیں کیسی (عبیداللہ علیم)

خیال و خواب ہوئی ہیں محبتیں کیسی

لہو میں ناچ رہی ہیں یہ وحشتیں کیسی

نہ شب کو چاند ہی اچھا نہ دن کو مہر اچھا

یہ ہم پہ بیت رہی ہیں قیامتیں کیسی

وہ ساتھ تھا تو خدا بھی تھا مہرباں کیا کیا

بچھڑ گیا تو ہوئی ہیں عداوتیں کیسی

ہوا کے دوش پہ رکھے ہوئے چراغ ہیں ہم

جو بجھ گئے تو ہوا سے شکایتیں کیسی

جو بےخبر کوئی گزرا تو یہ صدا دی ہے

 میں سنگِ راہ ہوں مجھ پر عنایتیں کیسی

نہیں کہ حسن ہی نیرنگیوں میں طاق نہیں

جنوں بھی کھیل رہا ہے سیاستیں کیسی

نہ صاحبانِ جنوں ہیں نہ اہلِ کشف و کمال

ہمارے عہد میں آئیں کثافتیں کیسی

یہ دورِ بے ہنراں ہے بچا رکھو خود کو

یہاں صداقتیں کیسی کرامتیں کیسی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *