مرے خدایا ! میں زندگی کے عذاب لکھوں (عبیداللہ علیم)

مرے خدایا ! میں زندگی کے عذاب لکھوں کہ خواب لکھوں

یہ میرا چہرہ ،  یہ میری آنکھیں

 بجھے ہوئے سے چراغ جیسے

 جو پھر سے جلنے کے منتظر ہوں

وہ چاند چہرہ، ستارہ آنکھیں

وہ مہرباں سایہ دار زلفیں

جنہوں نے پیماں کئے تھے مجھ سے

رفاقتوں کے ، محبتوں کے

کہا تھا مجھ سے کہ اے مسافر رہِ وفا کے

جہاں بھی جائے گا ہم بھی آئیں گے ساتھ تیرے

بنیں گے راتوں میں چاندنی ہم تو دن میں سائے بکھیر دیں گے

وہ چاند چہرہ، ستارہ آنکھیں

وہ مہرباں سایہ دار زلفیں

وہ اپنے پیماں رفاقتوں کے محبتوں کے

شکست کر کے

نہ جانے اب کس کی رہ گزر کا مینارۃ روشنی ہوئے ہیں

مگر مسافر کو کیا خبر ہے

وہ چاند چہرہ تو بجھ گیا ہے

ستارہ آنکھیں تو سو گئی ہیں

وہ زلفیں بے سایہ ہو گئی ہیں

وہ روشنی اور وہ سائے مری عطا تھے

سو میری راہوں میں آج بھی ہیں

کہ میں مسافر رہِ وفا کا

وہ چاند چہرہ ستارہ آنکھیں

وہ مہرباں سایہ دار زلفیں

ہزاروں چہروں ہزاروں آنکھوں

ہزاروں زلفوں کا ایک سیلابِ تند لے کر

مِرے تعاقب میں آرہے ہیں

ہر ایک چہرہ ہے چاند چہرہ

ہیں ساری آنکھیں ستارہ آنکھیں

تمام ہیں

مہرباں سایہ دار زلفیں

میں کس کو چاہوں میں کس کو چوموں

میں کِس کے سائے میں بیٹھ جاؤں

بچوں کہ طوفاں میں ڈوب جاؤں

کہ میرا چہرہ،  نہ میری آنکھیں

مِرے خدایا ! میں زندگی کے عذاب لکھوں کہ خواب لکھوں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *