جب ترے شہر سے گزرتا ہوں (سیف الدین سیف)

کِس طرح روکتا ہوں اشکوں کو

کِس طرح  دل پہ جبر کرتا ہوں

آج بھی کارزارِ ہستی میں !

جب ترے شہر سے گزرتا ہوں

 

اِس قدر بھی نہیں معلوم

کِس محلے میں ہے مکاں تیرا

کون سی شاخِ گل پہ رقصاں ہے

رشک فردوس ، آشیاں تیرا

جانے کِن وادیوں میں ٹھہرا ہے

غیرتِ حسن ، کارواں تیرا

کِس سے پوچھوں میں خبر تری

کون بتلائے گا نشاں تیرا

تیری رُسوائیوں سے ڈرتا ہوں

جب ترے شہر سے گزرتا ہوں

 

حالِ دل بھی کہہ سکا، گرچہ

تو رہی مدتوں قریب مرے

کچھ تری عظمتوں کا ڈر بھی تھا

کچھ خیالات  تھے عجیب مرے

آخرِ کار وہ گھڑی آئی

بارور ہوگئے رقیب مرے

تو مجھے چھوڑ کر چلی بھی گئی

خیر! قسمت مری، نصیب مرے

اب میں کیوں تجھ کو پیار کرتا ہوں

جب ترے شہر سے گزرتا ہوں

 

گو زمانہ تری محبت کا

ایک بھولی ہوئی کہونی ہے

تیرے کوچے میں عمر بھر نہ گئے

ساری دنیا کی خاک چھانی ہے

لذتِ قرب ہو کہ زخمِ فراق

جو بھی ہے تیری مہربانی ہے

کِس تمنا سے تجھ کو چاہا تھا

ک،س محبت سے ہار مانی ہے

اپنی قسمت پہ ناز کرتا ہوں

جب ترے شہر سے گزرتا ہوں

 

اشک پلکوں پہ آ نہیں سکتے

دل میں ہے تیری آبرو اب بھی

تجھ سے روشن ہے کائنات مری

تیرے جلوے ہیں چار سو اب بھی

اپنے غم خانئہ تخیل میں

تجھ سے ہوتی ہے گفتگو اب بھی

میں تو مشکل سے آہ بھرتا ہوں

جب ترے شہر سے زرتا ہوں

 

کوئی پُرسانِ حال ہو تو کہوں

کیسی آندھی چلی ہے تیرے بعد

دن گزارا ہے کس طرح میں نے

رات کیسے ڈھلی تیرے بعد

شمعِ امید صرصرِ غم میں

کس بہانے جلی ہے تیرے بعد

جس میں کوئی مکیں نہ رہتا ہو

دل وہ سونی گلی ہے تیرے بعد

روز جیتا ہوں روز مرتا ہوں

جب ترے شہر سے گزرتا ہوں

 

لیکن اے ساکنِ حریمِ خیال

یاد ہے دورِ کیف و کم کہ نہیں

کیا کبھی تیرے دل پہ گزرا ہے

میری مجبوریوں کا غم کہ نہیں

میری بربادیوں کا سن کر حال

آنکھ تیری ہوئی ہے نم کہ نہیں

اور اس کارزارِ ہستی میں

پھر کبی مل سکیں گے ہم کہ نہیں

ڈرتے ڈرتے سوال کرتا ہوں

جب ترے شہر سے گزرتا ہوں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *