Category «سیف الدین سیف»

مِری داستانِ حسرت وہ سنا سنا کے روئے (سیف الدین سیف)

مِری داستانِ حسرت وہ سنا سنا کے روئے مِرے آزمانے والے مجھے آزما کے روئے کوئی ایسا اہلِ دل ہو کہ فسانئہ محبت میں اسے سناؤں وہ مجھے سنا کے روئے مِری آرزو کی دنیا دلِ ناتواں کی حسرت جسے کھو کے شادماں تھے اسے آج پا کے روئے تِری بے وفائیوں پر تِری کج …

گر چہ سو بار غمِ ہجر سے جاں گزری ہے (سیف الدین سیف)

گر چہ سو بار غمِ ہجر سے جاں گزری ہے پھر بھی جو دل پہ گزرنی تھی کہاں گزری ہے آپ ٹھہرے ہیں تو ٹھہرا ہے نظامِ عالم آپ گزرے ہیں تو اِک موجِ رواں گزری ہے ہوش میں آئے تو بتلائے تِرا دیوانہ دن گزرا ہے کہاں رات کہاں گزری ہے حشر کے بعد …

کوئی نہیں آتا سمجھانے (سیف الدین سیف)

کوئی نہیں آتا سمجھانے اب آرام سے ہیں دیوانے مجبوری سب کو ہوتی ہے       ملنا ہو تو لاکھ  بہانے دنیا بھر کا درد سہا ہے ہم نے تیرے غم کے بہانے جلوۃ جاناں کی تصویریں ایک محبت ، سو فسانے سیف وہ غم کہ تشنئہ خوں ہے ہم زندہ ہٰیں جس کے بہانے

آئے تھے ان کے ساتھ نظارے چلے گئے (سیف الدین سیف)

آئے تھے ان کے ساتھ نظارے چلے گئے وہ شب وہ چاندنی وہ نظارے چلے گئے شاید تمہارے ساتھ بھی واپس نہ آ سکیں وہ ولولے جو ساتھ تمہارے چلے گئے کشتی تڑپ کے حلقئہ طوفاں میں رہ گئی دیکھو تو کتنی دور کنارے چلے گئے محفل میں کس کو تاب حضورِ جمال تھی آئے …

رات ہو دِن، سوگوار ہے تُو (سیف الدین سیف)

رات ہو دِن، سوگوار ہے تُو اے غمِ دِل! سدا بہار ہے تُو اے اجل آ، کہ لوگ کہتے ہیں تیرہ بختوں کی غم گُسار ہے تُو ہائے خوش فہمیاں محبّت کی! میں سمجھتا تھا شرمسار ہے تُو گریۂ خُوں ٹھہر ٹھہر کے برس باغ کی آخری بہار ہے تُو !وہ تو رُسوا ہے اب …

در پردہ جفاؤں کو اگر جان گئے ہم (سیف الدین سیف)

در پردہ جفاؤں کو اگر جان گئے ہم تم یہ نہ سمجھنا کہ برا مان  گئے ہم اب اور ہی عالم ہے جہاں کا دلِ ناداں اب ہوش میں آئے تو مری جان گئے ہم پلکوں پہ لرزتے ہوئے تارے سے یہ آنسو اے حسنِ پشیماں ترے قربان گئے ہم ہم اور ترے حسنِ تغافل …

آپ سے عرضِ ملاقات نئی بات نہیں (سیف الدین سیف)

آپ سے عرضِ ملاقات نئی بات نہیں ہے مِرے لب پہ وہی بات نئی بات نہیں دلِ بے تاب یہ ہلچل یہ قیامت کیسی آج کچھ ان سے ملاقات نئی بات نہیں آپ آجائیں تو رِم جھِم کی صدا ناچ اٹھے ورنہ یہ رات یہ برسات نئی بات نہیں ہے یہی فرقئہ اربابِ وفا کا …

میں تیرا شہر چھوڑ جاؤں گا (سیف الدین سیف)

وعدہ اس سے پہلے کے تیری چشم کرم معذرت کی نگاہ بن جائے پیار ڈھل جائے میرے اشکوں میں آرزو ایک آہ بن جائے اِس سے پہلے کہ تیرے بام کا حُسن رفعت ِ مہر و ماہ بن جائے مجھ پے آ جائے عشق کا الزام اور تو بے گناہ بن جائے میں تیرا شہر …

در پردہ جفاؤں کو اگر جان گئے ہم (سیف الدین سیف)

در پردہ جفاؤں کو اگر جان گئے ہم تم یہ نہ سمجھنا کہ برا مان  گئے ہم اب اور ہی عالم ہے جہاں کا دلِ ناداں اب ہوش میں آئے تو مری جان گئے ہم پلکوں پہ لرزتے ہوئے تارے سے یہ آنسو اے حسنِ پشیماں ترے قربان گئے ہم ہم اور ترے حسنِ تغافل …

جب ترے شہر سے گزرتا ہوں (سیف الدین سیف)

کِس طرح روکتا ہوں اشکوں کو کِس طرح  دل پہ جبر کرتا ہوں آج بھی کارزارِ ہستی میں ! جب ترے شہر سے گزرتا ہوں   اِس قدر بھی نہیں معلوم کِس محلے میں ہے مکاں تیرا کون سی شاخِ گل پہ رقصاں ہے رشک فردوس ، آشیاں تیرا جانے کِن وادیوں میں ٹھہرا ہے …