اب نہ بہل سکے گا دل اب نہ دیا جلایئے (احمد مشتاق )

اب نہ بہل سکے گا دل اب نہ دیا جلایئے

عشق و ہوس ہیں سب فریب آپ سے کیا چھپایئے

اس نے کہا کہ یاد ہیں رنگ طلوع عشق کے

میں نے کہا کہ چھوڑیئے اب انہیں بھول جایئے

کیسے نفیس تھے مکاں صاف تھا کتنا آسماں

میں نے کہا کہ وہ سماں آج کہاں سے لایئے

کچھ تو سراغ مل سکے موسم دردِ ہجر کا

سنگِ جمالِ یار پر نقش کوئی بنایئے

کوئی شرار نہیں بچا پچھلے برس کی راکھ میں

ہم نفسانے شعلئہ خوں آج نئے جلایئے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *