یہ تنہا رات یہ گہری فضائیں (احمد مشتاق)

یہ تنہا رات یہ گہری فضائیں

اُسے ڈھونڈیں کہ اُس کو بھول جائیں

خیالوں کی گھنی خاموشیوں میں

گھلی جاتی ہیں لفظوں کی صدائیں

یہ رستے رہروؤں سے بھاگتے ہیں

یہاں چھپ چھپ کے چلتی ہیں ہوائیں

یہ پانی خامشی سے بہ رہا ہے

اسے دیکھیں کہ اس میں ڈوب جائیں

جو غم جلتے ہیں شعروں کی چتا میں

انہیں پھر اپنے سینے سے لگائیں

چلو ایسا مکاں آباد کر لیں

جہاں لوگوں کی آوازیں نہ آئیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *