خوابوں کو باتیں کرنے دو (امجد اسلام امجد)

آنکھوں میں جو خواب ہیں ان کو باتیں کرنے دو

ہونٹوں سے وہ لفظ کہو جو کاجل کہتا ہے

موسم جو سندیسہ لایا اُس کو پڑھ تو لو

سُن تو لو وہ راز جو پیاسا ساحل کہتا ہے!

 

آتی جاتی لہروں سے کیا پوچھ رہی ہے ریت!

بادل کی دہلیز پہ تارے کیونکر بیٹھے ہیں!

جھرنوں نے اُس گیت کا مکھڑا کیسے یاد کیا!

جس کے ہر اک بول میں ہم تم باتیں کرتے ہیں

 

راہ گزر کا، موسم کا ، ناں بارش کا محتاج

وہ دریا ، جو ہر اک دل کے اندر بہتا ہے

کھا جاتا ہے ہر اک شعلہ  وقت کا آتش دان

بس اِک نقشِ "محبت"ہے جو باقی رہتا ہے

 

آنکھوں میں جو خواب ہیں ان کو باتیں کرنے دو

ہونٹوں سے وہ لفظ کہو جو کاجل کہتا ہے!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *