Category «امجد اسلام امجد»

ہوا تھمی تھی ضرور لیکن (امجد اسلام امجد)

ہوا تھمی تھی ضرور لیکن وہ شام بھی جیسے سسک رہی تھی کہ زرد پتوں کو آندھیوں‌ نے عجیب قصہ سنا دیا تھا کہ جس کو سن کر تمام پتے سسک رہے تھے بلک رہے تھے جانے کس سانحے کے غم میں شجر جڑوں سے اکھڑ چکے تھے بہت تلاشا تھا ہم نے تم کو …

کہنے کو میرا اس سے کوئی واسطہ نہیں (امجد اسلام امجد)

کہنے کو میرا اس سے کوئی واسطہ نہیں امجد مگر وہ شخص مجھے بھولتا نہیں ڈرتا ہوں آنکھ کھولوں تو منظر بدل نہ جائے میں جاگ تو رہا ہوں مگر جاگتا نہیں آشفتگی سے اس کی اسے بے وفا نہ جان عادت کی بات اور ہے دل کا برا نہیں تنہا اداس چاند کو سمجھو …

یہ اور بات تجھ سے گلا نہیں کرتے (امجد اسلام امجد)

یہ اور بات تجھ سے گلا نہیں کرتے جو زخم تو نے دیئے ہیں بھرا نہیں کرتے ہزار جال لیے گھومتی پھرے دنیا ترے اسیر کسے کے ہوا نہیں کرتے یہ آئینوں کی طرح دیکھ بھال چاہتے ہیں کہ دل بھی ٹوٹیں تو پھر سے جڑا نہیں کرتے وفا کی آنچ سخن کا تپاک دو …

گلاب چہرے پہ مسکراہٹ (امجد اسلام امجد)

ایک لڑکی گلاب چہرے پہ مسکراہٹ  چمکتی آنکھوں میں شوخ جذبے وہ جب بھی کالج کی سیڑھیوں سے سہیلیوں کو لئے اترتی تو ایسے لگتا کہ جیسے دل میں اتر رہی ہو کچھ اس تیقن سے بات کرتی کہ جیسے دنیا اسی کی آنکھوں سے دیکھتی ہو وہ اپنے رستے پہ دل بچھاتی ہوئی  نگاہوں …

چہرے پہ مرے زلف کو پھیلاؤ کسی دن (امجد اسلام امجد)

چہرے پہ مرے زلف کو پھیلاؤ کسی دن کیا روز گرجتے ہو برس جاؤ کسی دن رازوں کی طرح اترو مرے دل میں کسی شب دستک پہ مرے ہاتھ کی کھل جاؤ کسی دن پیڑوں کی طرح حُسن کی بارش میں نہا لوں بادل کی طرح جھوم کے گھِر آؤ کسی دن خوشبو کی طرح …

بھیڑ میں اِک اجنبی کا سامنا اچھا لگا (امجد اسلام امجد)

بھیڑ میں اِک اجنبی کا سامنا اچھا لگا سب سے چھپ کر وہ کسی کا دیکھنا اچھا لگا سرمئی آنکھوں کے نیچے پھول سے کھِلنے لگے کہتے کہتے کچھ کسی کا سوچنا اچھا لگا بات تو کچھ بھی نہیں تھی لیکن اس کا اِک دم ہاتھ کو ہونٹوں پہ رکھ کر روکنا اچھا لگا چائے …

ہر پل دھیان میں بسنے والے لوگ (امجد اسلام امجد)

ہر پل دھیان میں بسنے والے لوگ، فسانے ہو جاتے ہیں آنکھیں بوڑھی ہو جاتی ہیں، خواب پرانے ہو جاتے ہیں ساری بات تعلق والی جذبوں کی سچائی تک ہے میل دلوں میں آجائے تو گھر ویرانے ہو جاتے ہیں منظر منظر کھل اٹھتی ہے پیراہن کی قوس و قزح موسم تیرے ہنس پڑنے سے …

زمانے کے سب موسموں سے نرالے (امجد اسلام امجد)

محبت کے موسم زمانے کے سب موسموں سے نرالے بہار و خزاں ان کی سب سے جدا الگ ان کا سوکھا ، الگ ہے گھٹا محبت کے خطے کی آب و ہوا ماوراء ، ان عناصر سے جو موسموں کے تغیر کی بنیاد ہیں یہ زمان و مکاں کے کم و بیش سے ایسے آزاد …

کیا کیا ہمارے خواب تھے، جانے کہاں پہ کھو گئے (امجد اسلام امجد)

کیا کیا ہمارے خواب تھے، جانے کہاں پہ کھو گئے تم بھی کسی کے ساتھ ہو، ہم بھی کسی کے ہو گئے جانے وہ کیوں تھے، کون تھے، آئے تھے کس لئے یہاں وہ جو فشارِ وقت میں، بوجھ سا ایک ڈھو گئے اس کی نظر نے یوں کیا گردِ ملالِ جاں کو صاف ابر …