راستے یاد نہیں راہنما یاد نہیں (قتیل شفائی)

راستے یاد نہیں راہنما یاد نہیں

اب مجھے کچھ تری گلیوں کےسوا یاد نہیں

 

پھر خیالوں میں وہ بیتے ہوئے ساون آئے

لیکن اب تجھ کو پپیہےکی صدا یاد نہیں

 

ایک وعدہ تھا جو شیشے کی طرح ٹوٹ گیا

حادثہ کب یہ ہواکیسے ہوا یاد نہیں

ہم دیا کرتے تھے اغیار کو طعنہ جن کا

اب تو ہم کو بھی وہ آدابِ وفا یاد نہیں

 

وفاداری سے ہے مجبور مرا پیار قتیل

سب پرانے ہیں کوئی داغ نیا یاد نہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *