اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں بسا لے مجھ کو (قتیل شفائی)

اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں سجالے مجھ کو

میں ہوں تیرا تو نصیب  اپنا بنا لے مجھ کو

 

مَیں جو کانٹا ہوں تو چل مجھ سے بچا کر دامن

مَیں ہوں گر پھول تو جوڑے میں سجالے مجھ کو

 

ترکِ الفت کی قسم بھی کوئی ہوتی ہے قسم

تو کبھی یاد تو کر بھولنے والے مجھ کو

 

مجھ سے تُو پوچھنے آیا ہے وفا کے معنی

یہ تِری سادہ دلی مار نہ ڈالے مجھ کو

 

میں سمندر بھی ہوں موتی بھی ہوں غوطہ زن بھی

کوئی بھی مِرا نام لے کے بلالے مجھ کو

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *