کہاں آ کے رکنے تھے راستے(امجد اسلام امجد)

کہاں آ کے رکنے تھے راستے کہاں موڑ تھا اسے بھول جا

وہ جو مل گیا اسے یاد رکھ جو نہیں ملا اسے بھول جا

 

وہ ترے نصیب کی بارشیں کسی اور چھت پہ برس گئیں

دلِ بے خبر، مری بات سن اسے بھول جا، اسے بھول جا

 

میں تو گم تھا ترے ہی دھیان میں تری آس ترے گمان میں

صبا آکے کہہ گئی مرے کان میں مرے ساتھ آ اسے بھول جا

 

اور کسی آنکھ میں نہیں اشکِ غم  تیرے بعد کچھ بھی نہیں ہے کم

تجھے زندگی نے بھلا دیا تو بھی مسکرا اسے بھول جا

 

کیوں اٹا ہوا ہے غبار میں غمِ زندگی کے فشار میں

وہ جو درج تھا تیرے بخت میں سو وہ ہو گیا اسے بھول جا

 

نہ وہ آنکھ ہی تیری آنکھ تھی نہ وہ خواب ہی تیرے خواب تھے

دلِ منتظر تویہ کس لئے تیرا جاگنا اسے بول جا

 

جو بساطِ جاں ہی الٹ گیا وہ جو راستے سے پلٹ گیا

اسے روکنے سے حصول کیا اسے مت بلا اسے بھول جا

 

تو یہ کس لیے شبِ ہجر کے ہر ستارے میں اسے دیکھنا

تجھے چاند بن کے ملا تھا جو کوئی اور تھا اسے بھول جا

 

تجھے چاند بن کے ملا تھا جو تیرے ساحلوں پہ کھلا تھا جو

وہ تھا ایک دریا وصال ک سو اتر گیا  اسے بھول جا

 

 

 

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *