خود بخود مے ہے کہ شیشے میں بھری آوے ہے (جاں نثار اختر)

خود بخود مے ہے کہ شیشے میں بھری آوے ہے

کس بلا کی تمہیں جادو نظری آوے ہے

 

دل میں در آوے ہے ہر صبح کوئی یاد ایسے

جوں دبے پاؤں نسیمِ سحری آوے ہے

 

اور بھی زخم ہوئے جاتے ہیں گہرے دل کے

ہم تو سمجھے تھے تمہیں چارہ گری آوے ہے

 

ایک قطرہ بھی لہو جب نہ رہے سینے میں

تب کہیں عشق میں کچھ بے جگری آوے ہے

 

چاک دامان و گریباں کے بھی آداب ہیں کچھ

ہر دوانے کو کہاں جامہ دری آوے ہے

 

تو کبھی راگ ، کبھی رنگ، کبھی خوشبو ہے

کیسی کیسی نہ تجھے عشوہ گری آوے ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *