رہی ہیں داد طلب ان کی شوخیاں ہم سے
ادا شناس بہت ہیں مگر کہاں ہم سے
سنا دیئے تھے کبھی کچھ غلط سلط قصے
وہ آج تک ہیں اُسی طرح بد گماں ہم سے
یہ کُنج کیوں نہ زیارت گہہِ محبت ہو
ملے تھے وہ انہیں پیڑوں کے درمیاں ہم سے
ہمیں کو فرصتِ نظارگی نہیں ، ورنہ
اشارے آج بھی کرتی ہیں کھڑکیاں ہم سے
ہر ایک رات نشے میں ترے بدن کا خیال
نہ جانے ٹوٹ گئیں کَے صراحیاں ہم سے
نہ لفظ ہے، نہ کنایہ، نہ صوت ہے نہ صدا
سکوتِ شب کا نہ پوچھے کوئی زیاں ہم سے
ہماری قدر کرو اے سخن کے متوالو
غزل کو کل نہ ملیں گے مزاج داں ہم سے