قریئہ جاں میں کوئی پھول کھلانے آئے
وہ مرے دل پہ نیا زخم لگانے آئے
میرے ویران دریچون میں بھی خوشبو جاگے
وہ مرے گھر کے در و بام سجانے آئے
اُس سے اِک بار تو روٹھوں اُسی کی مانند
اور مری طرح سے وہ بھی مجھ کو منانے آئے
اِسی کوچے میں کئی اُس کے شناسا بھی تو ہیں
وہ کسی اور سے ملنے کے بہانے آئے
ضبط کی شہر پناہوں کی، مرے مالک! خیر
غم کا سیلاب اگر مجھ کو بہانے آئے