بات کرنے میں گزرتی ہے ملاقات کی رات (بیخود دہلوی)

بات کرنے میں گزرتی ہے ملاقات کی رات

بات ہی کیا ہے جو رہ جاؤ یہیں رات کی رات

 

اس شبِ تار میں جانے کی اجازت کیا خوب

اور پھر اس پہ یہ طرہ ہے کہ برسات کی رات

 

حور کے شوق میں تڑپا کیے ہم تو واعظ

کہیے کس طرح کٹی قبلئہ حاجات کی رات

 

غیر کا ذکر کبھی ختم بھی ہو گا کہ نہیں

یہ شبِ وصل ہے یا حرف و حکایات کی رات

 

عیش و عشرت ہے کبھی رنج و مصیبت ہے کبھی

کوئی اِس کام کا دن کوئی اُس بات کی رات

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *