جب تصور مِرا چپکے سے تجھے چھو آئے (قتیل شفائی)

جب تصور مِرا چپکے سے تجھے چھو آئے

اپنی ہر سانس سے مجھ کو تری خوشبو آئے

 

مشغلہ اب ہے مرا چاند کو تکتے رہنا

رات بھر چین نہ مجھ کو کسی پہلو آئے

 

جب کبھی گردشِ دوراں نے ستایا مجھ کو

مری جانب ترے پھیلے ہوئے بازو آئے

 

جب بھی سوچا کہ شبِ ہجر نہ ہو گی روشن

مجھ کو سمجھانے تری یاد کے جگنو آئے

 

کتنا حساس مری آس کا سناٹا ہے

کہ خموشی بھی جہاں باندھ کے گھنگھرو آئے

 

مجھ سے ملنے کو سرِ شام کوئی سایہ سا

تیرے آنگن سے چلے اور لبِ جو آئے

 

اس کے لہجے کا اثر تو ہے بڑی بات قتیل

وہ تو آنکھوں سے بھی کرتا ہوا جادو آئے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *