جوبھی غنچہ ترے ہونٹوں پہ کھلا کرتا ہے (قتیل شفائی)

جوبھی غنچہ ترے ہونٹوں پہ کھلا کرتا ہے

وہ مری تنگئی داماں کا گلہ کرتا ہے

 

دیر سے آج میرا سر ہے ترے زانو پر

یہ وہ رتبہ ہے جو شاہوں کو ملا کرتا ہے

 

میں تو بیٹھا ہوں دبائے ہوئے طوفانوں کو

تو مرے دل کے دھڑکنے کا گلہ کرتا ہے

 

رات یوں چاند کو دیکھا ہے ندی میں رقصاں

جیسے جھومر ترے ماتھے پہ ہلا کرتا ہے

 

جب مری سیج پہ ہوتا ہے بہاروں کا نزول

صرف اک پھول کواڑوں میں کھلا کرتا ہے

 

کون کافر تجھے الزامِ تغافل دے گا

جو بھی کرتا ہے محبت سے گلہ کرتا ہے

 

لوگ کہتے ہیں جسے نیل کنول وہ تو قتیل

شب کو ان جھیل سی آنکھوں میں کھلا کرتا ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *