چلنے کا حوصلہ نہیں رکنا محال کر دیا (پروین شاکر)

چلنے کا حوصلہ نہیں رکنا محال کر دیا

عشق کے اس سفر نے تو مجھ کو نڈھال کر دیا

 

اے مری گل زمیں تجھے چاہ تھی اک کتاب کی

اہلِ کتاب نے مگر کیا ترا حال کر دیا

 

ملتے ہوئے دلوں کے بیچ اور تھا فیصلہ کوئی

اس نے مگربچھڑتے وقت اور سوال کر دیا

 

اب کے ہوا کے ساتھ ہے دامنِ یار منتظر

بانوئے شب کے ہاتھ میں رکھنا سنبھال کر دیا

 

ممکنہ فیصلوں میں ایک ہجر کا فیصلہ بھی تھا

ہم نے تو ایک بات کی اس نے کمال کر دیا

 

میرے لبوں پہ مہر تھی پر میرے شیشہ رو نے تو

شہر کے شہر کو مرا واقفِ حال کر دیا

 

مدتوں بعد اس نے آج مجھ سے کوئی گلہ کیا

منصبِ دلبری پہ کیا مجھ کو بحال کر دیا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *