اے گردشِ حیات ! کبھی تو دکھا وہ نیند(امجد اسلام امجد)

اے گردشِ حیات ! کبھی تو دکھا وہ نیند

جس میں شبِ وصال کا نشہ ہو ، وہ نیند

 

ہرنی سی ایک آنکھ کی مستی میں قید تھی

اک عمر جس کی کھوج میں پھرتا رہا، وہ نیند

 

پھوٹیں گے اب نہ ہونٹ کی ڈالی پہ کیا گلاب؟

آئے گی اب نہ لوٹ کے آنکھوں میں کیا ، وہ نیند

 

کچھ رُتجگے سے جاگتی آنکھوں میں رہ گئے

زنجیرِ انتظار کا تھا سلسلہ ، وہ نیند

 

دیکھا کچھ اس طرح سے، کسی خوش نگاہ نے

رخصت ہوا تو ساتھ ہی لیتا گیا، وہ نیند

 

خوشبو کی طرح مجھ پہ جو بکھری تمام شب

میں اس کی مست آنکھ سے چنتا رہا ، وہ نیند

 

تو جس کے بعد حشر کا میلہ سجائے گا

میں جس کے انتظار میں ہوں اے خدا ، وہ نیند

 

امجد ہماری آنکھ میں لوٹی نہ پھر کبھی

اُس بے وفا کے ساتھ گئی بے وفا ، وہ نیند

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *