غضب ہے جستجوئے دل کا یہ انجام ہو جائے ( شعری بھوپالی)

غضب ہے جستجوئے دل کا یہ انجام ہو جائے

کہ منزل دور ہو اور راستے میں شام ہو جائے

 

وہی نالہ ، وہی نغمہ بس اک تفریقِ لفظی ہے

قفس کو منتشر کر دو نشیمن نام ہو جائے

 

تصدق عصمتِ کونین اس مجذوبِ الفت پر

جو ان کا غم چھپائے اور خود بدنام ہو جائے

 

یہ عالم ہو تو ان کو بےحجابی کی ضرورت کیا

نقاب اٹھنے نہ پائے اور جلوہ عام ہو جائے

 

یہ میرا فیصلہ ہے ، آپ میرے ہو نہیں سکتے

میں جب جانوں کہ یہ جذبہ مرا ناکام ہو جائے

 

ابھی تو دل میں ہلکی سی خلش محسوس ہوتی ہے

بہت ممکن ہے کل اس کا محبت نام ہو جائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *