ترےنثار نہ دیکھی کوئی خوشی میں نے (قمر جلالوی)

ترےنثار نہ دیکھی کوئی خوشی میں نے

کہ اب تو موت کو سمجھا ہے زندگی میں نے

یہ دل میں سوچ کے توبہ بھی توڑ دی میں نے

نہ جانے کیا کہے ساقی اگر نہ پی میں نے

کوئی بلا مرے سر پر ضرور آئے گی

کہ تیری زلفِ پریشاں سنوار دی میں نے

سحر ہوئی شبِ وعدہ کا اضطراب گیا

ستارے چھپ گئے گُل کر دی روشی میں نے

سوائے دل مجھے دیر و حرم سے کیا مطلب

جگہ حضور کے ملنے کی ڈھونڈ لی میں نے

جہاں چلا دیا ساغر کا دور اے واعظ

وہیں پہ گردشِ ایام روک دی میں نے

بلائیں لینے پہ آپ ہوگئے اتنے برہم

حضور کون سی جاگیر چھین لی میں نے

دعائیں دو مجھے در د ر جنوں میں پھر پھر کر

تمہاری شہرتیں کر دیں گلی گلی میں نے

جواب اس کا تو شاید فلک بھی نہ دے سکے

وہ بندگی جو تری رہگزر میں کی میں نے

وہ جانے کیسے پتہ دے گئے تھے گلشن کا

نہ چھوڑا پھول نہ چھوڑی کلی میں نے

قمر وہ نیند میں تھے ان کو کیا خبر ہو گی

کہ ان پہ شب کو لٹائی ہے چاندی میں نے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *