سب نے کئے ہیں باغ میں اُن پر نِثار پُھول
اے سرو آ تُجھے میں دِلا دُوں اُدھار پُھول
لاتا نہیں کوئ مِری تُربت پہ چار پُھول
ناپید ایسے ہو گئے پروردگار پُھول
جاتی نہیں شباب میں بھی کم سِنی کی بُو
ہاروں میں اُن کے چار ہیں کلیاں تو چار پُھول
کب حلق کٹ گیا مُجھے معلُوم بھی نہیں
قاتِل کُچھ ایسی ہو گئی خنجر کی دھار پُھول
یہ ہو نہ ہو کِسی مُضطرب کا ہے
جب سے چڑھے ہیں قبر پہ ہیں بے قرار پُھول
یارب یہ ہار ٹُوٹ گیا کِس کا راہ میں
اُڑ اُڑ کے آ رہے ہیں جو سُوۓ مزار پُھول
او محوِ بزمِ غیر تُجھے کُچھ خبر بھی ہے
گُلشن میں کر رہے ہیں تِرا اِنتِظار پُھول
اِتنے ہُوۓ ہیں جمع مِری قبر پر قمرؔ
تاروں کی طرح ہو نہیں سکتے شمار پُھول۔۔۔