تمہیں جفا سے نہ یوں باز آنا چاہئے تھا
ابھی کچھ اور میرا دل دُکھانا
چاہئے تھا
طویل رات کے پہلو میں کب سے
سوئی ہے
نوائے صبح تُجھے جاگ جانا
چاہئے تھا
بہت قلق ہوا حیرت زدہ طوفانوں
کو
کہ کون ڈُوبے کہیں ڈوب
جانا چاہئے تھا
بُجھے چراغوں میں کتنے ہیں جو
جلے ہی نہیں
کہ سوئے وقت انہیں جگمگانا
چاہئے تھا
عجب نہ تھا کہ قفس ساتھ لے
کے اُڑ جاتے
تڑپنا چاہئے تھا، پھڑپھڑانا
چاہئے تھا
یہ میری ہار کہ کارِ جہاں
سے ہارا مگر
بچھڑنے والے تُجھے یاد آنا
چاہئے تھا
تمام عمر کی آسُودگئ وصل کے
بعد
فراق آخری دھوکا تھا، کھانا
چاہئے تھا