نہ کوئی چاپ نہ سایہ کوئی نہ سرگوشی (احمد فراز)

نہ کوئی چاپ نہ سایہ کوئی نہ سرگوشی

مگر یہ دل کہ بضد ہے نہیں نہیں کوئی ہے

یہ ہم کہ راندۃ افلاک تھے کہاں جاتے

یہی بہت ہے کہ پاؤں تلے زمیں کوئی ہے

ہر اِک زبان پہ اپنے لہو کے ذائقے ہیں

نہ کوئی زہرِ ہلاہل نہ انگبیں کوئی ہے

بھلا لگا ہے ہمیں عاشقوں کا پہناوا

نہ کوئی جیب سلامت نہ آستیں کوئی ہے

دیارِ دل کا مسافر کہاں سے آیا ہے

خبر نہیں مگر اک شخص بہتریں کوئی ہے

فراز اتنی بھی ویران نہیں مری دنیا

خزاں میں بھی گلِ خنداں کہیں کہیں کوئی ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *