میں تیرا شہر چھوڑ جاؤں گا (سیف الدین سیف)

وعدہ

اس سے پہلے کے تیری چشم کرم
معذرت کی نگاہ بن جائے
پیار ڈھل جائے میرے اشکوں میں
آرزو ایک آہ بن جائے
اِس سے پہلے کہ تیرے بام کا حُسن
رفعت ِ مہر و ماہ بن جائے
مجھ پے آ جائے عشق کا الزام
اور تو بے گناہ بن جائے

میں تیرا شہر چھوڑ جاؤں گا

اِس سے پہلے کے سادگی تری
لبِ خاموش کو گِلہ کہہ دے
میں تجھے چارہ گر خیال کروں
تُو مرے غم کو لا دَوا کہہ دے
تیری مجبوریاں نہ دیکھ سکے
اور دل تجھ کو بے وفا کہہ دے
جانے میں بے خُودی میں کیا پُوچُھوں
جانے تو بے رُخی سے کیا کہہ دے

میں تیرا شہر چھوڑ جاؤں گا

اس سے پہلے کے تیرے ہونٹوں سے
غیر ہونٹوں کے جام ٹکرائے
اس سے پہلے کے زلف کے بادل
اجنبی بازوؤں پہ لہرائے
اور تیری بےبسی کے نظارے
میری آنکھوں پہ آگ برسائے

میں تیرا شہر چھوڑ جاؤں گا

چارہء درد ہو بھی سکتا تھا
مجھ کو اِتنی خوشی بہت کُچھ ہے
پیار گو جاوداں نہیں پھر بھی
پیار کی یاد بھی بہت کُچھ ہے
آنے والے دنوں کی ظلمت میں
آج کی روشنی بہت کُچھ ہے
اِس تہی دامنی کے عالم میں
جو ملا ہے، وہی بہت کُچھ ہے

میں تیرا شہر چھوڑ جاؤں گا

چھوڑ کر ساحل ِ مراد چلا
اب سفینہ مرا کہیں ٹھہرے

زہر پینا مرا مقدر ہے
اور ترے ہونٹ انگبیں ٹھہرے
کس طرح تیرے آستاں پہ رکوں
جب نہ پاوں تلے زمیں ٹھہرے
اِس سے بہتر ہے دل یہی سمجھے
تُو نے روکا تھا ہم نہیں ٹھہرے

میں تیرا شیر چھوڑ جاؤں گا

مجھ کو اِتنا ضرور کہنا ہے
وقتِ رخصت سلام سے پہلے
کوئی نامہ نہیں لکھا میں نے
تیرے حرفِ پیام سے پہلے
توڑ لوں رشتہء نظر میں بھی
تم اتر جاو بام سے پہلے
لے مری جاں میرا وعدہ ہے
کل کسی وقت شام سے پہلے

میں تیرا شہر چھوڑ جاؤں گا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *