آہ پھر نغمہ بنا چاہتی ہے
خامُشی طرزِ ادا چاہتی ہے
آج پھر وسعتِ صحرائے جنوں
پرسشِ ابلہ پا چاہتی ہے
دیکھ کیفیتِ طوفانِ بہار
بوئے گل رنگ ہوا چاہتی ہے
دل میں اب خارِ تمنا بھی نہیں
زندگی برگ و نوا چاہتی ہے
اک ہمیں بارِ چمن ہیں ورنہ
غنچے غنچے کو صبا چاہتی ہے