گر چہ سو بار غمِ ہجر سے جاں گزری ہے (سیف الدین سیف)

گر چہ سو بار غمِ ہجر سے جاں گزری ہے

پھر بھی جو دل پہ گزرنی تھی کہاں گزری ہے

آپ ٹھہرے ہیں تو ٹھہرا ہے نظامِ عالم

آپ گزرے ہیں تو اِک موجِ رواں گزری ہے

ہوش میں آئے تو بتلائے تِرا دیوانہ

دن گزرا ہے کہاں رات کہاں گزری ہے

حشر کے بعد بھی دیوانے تِرے پوچھتے ہیں

وہ قیامت جو گزرنی تھی کہاں گزری ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *