کیوں نہ ہم عہدِ رفاقت کو بھلانے لگ جائیں (احمد فراز)

کیوں نہ ہم عہدِ رفاقت کو بھلانے لگ جائیں

شاید اس زخم کو بھرنے میں زمانے لگ جائیں

نہیں ایسا بھی کہ اک عمر کی قربت کے نشے

ایک دو روز کی رنجش سے ٹھکانے لگ جائیں

یہی ناصح! جو ہمیں تجھ سے نہ ملنے کو کہیں

تجھ کو دیکھیں تو تجھے دیکھنے آنے لگ جائیں

ہم کہ ہیں لذتِ آزار کے مارے ہوئے لوگ

چارہ گر آئیں تو زخموں کو چھپانے لگ جائیں

ربط کے سینکڑوں حیلے ہیں محبت نہ سہی

ہم ترے ساتھ کسی اور بہانے لگ جائیں

ساقیا۔۔۔۔۔۔۔۔مسجد و مکتب تو نہیں میخانہ

دیکھنا پھر بھی غلط لوگ نہ آنے لگ جائیں

قرب اچھا ہے پھر بھی اتنی شدت سے نہ مل

یہ نہ ہو تجھ کو مرے روگ پرانے لگ جائیں

اب فراز آؤ چلیں اپنے قبیلے کی طرف

شاعری ترک کریں بوجھ اٹھانے لگ جائیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *