ہر پل دھیان میں بسنے والے لوگ (امجد اسلام امجد)

ہر پل دھیان میں بسنے والے لوگ، فسانے ہو جاتے ہیں

آنکھیں بوڑھی ہو جاتی ہیں، خواب پرانے ہو جاتے ہیں

ساری بات تعلق والی جذبوں کی سچائی تک ہے

میل دلوں میں آجائے تو گھر ویرانے ہو جاتے ہیں

منظر منظر کھل اٹھتی ہے پیراہن کی قوس و قزح

موسم تیرے ہنس پڑنے سے اور سہانے ہو جاتے ہیں

جھونپڑیوں میں ہر تلخی پیدا ہوتے ہی مل جاتی ہے

اس لئے تو وقت سے پہلے طفل سیانے ہو جاتے ہیں

 موسمِ عشق کی آہٹ سے ہی ہر اک چیز بدل جاتی ہے

راتیں پاگل کر دیتی ہیں دن دیوانے ہو جاتے ہیں

دنیا کے اس شور نے امجد کیا کیا ہم سے چھین لیا ہے

خود سے بات کئے بھی اب تو کئی زمانے ہو جاتے ہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *