عام فیضانِ غم نہیں ہوتا
ہر نفس محترم نہیں ہوتا
یا محبت میں غم نہیں ہوتا
یا مرا شوق کم نہیں ہوتا
نامرادی نے کر دیا خودادر
اب سرِ شوق ختم نہیں ہوتا
شوق ہی بدگمان ہوتا ہے
اُس طرف سے ستم کم نہیں ہوتا
راستہ ہے کہ کٹتا جاتا ہے
فاصلہ ہے کہ کم نہیں ہوتا
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
ٹوٹ جاتا ہے دل مگر قابل
عشق مانوسِ غم نہیں ہوتا