Category «قابل اجمیری»

خیال سود نہ اندیشۂ زیاں ہے ابھی (قابل اجمیری)

خیال سود نہ اندیشۂ زیاں ہے ابھی چلے چلو کہ مذاقِ سفر جواں ہے ابھی ہمارے نقشِ قدم سے چمک اٹھے شاید فضائے منزلِ جاناں دھواں دھواں ہے ابھی نئے نئے ہیں عزائم نئی نئی ہے تلاش جمالِ دوست سے دل مطمئن کہاں ہے ابھی رکا رکا سا تبسم جھکی جھکی سی نظر تمہیں سلیقۂ …

تم نہ مانو مگر حقیقت ہے (قابل اجمیری)

تم نہ مانو مگر حقیقت ہے عشق انسان کی ضرورت ہے جی رہا ہوں اس اعتماد کے ساتھ زندگی کو مری ضرورت ہے حسن ہی حسن جلوے ہی جلوے صرف احساس کی ضرورت ہے اس کے وعدے پہ ناز تھے کیا کیا اب در و بام سے ندامت ہے اس کی محفل میں بیٹھ کر …

مدتوں ہم نے غم سنبھالے ہیں (قابل اجمیری)

مدتوں ہم نے غم سنبھالے ہیں اب تری یاد کے حوالے ہیں زندگی کے حسین چہرے پر غم نے کتنے حجاب ڈالے ہیں کچھ غمِ زیست کا شکار ہوئے کچھ مسیحا نے مار ڈالے ہیں راہ گزارِ حیات میں ہم نے خود نئے راستے نکالے ہیں اے شب ِ غم ذرا سنبھال کے رکھ ہم …

اب یہ عالم ہے کہ غم کی بھی خبرہوتی نہیں (قابل اجمیری)

اب یہ عالم ہے کہ غم کی بھی خبر ہوتی نہیں اشک بہہ جاتے ہیں لیکن آنکھ تر ہوتی نہیں پھر کوئی کم بخت کشتی نذرِ طوفاں ہو گئی ورنہ ساحل پر اداسی اس قدر ہوتی نہیں تیرا اندازِ تغافل ہے جنوں میں آج کل چاک کر لیتا ہوں دامن اور خبر ہوتی نہیں ہائے …

عام فیضانِ غم نہیں ہوتا (قابل اجمیری)

عام فیضانِ غم نہیں ہوتا ہر نفس محترم نہیں ہوتا یا محبت میں غم نہیں ہوتا یا مرا شوق کم نہیں ہوتا نامرادی نے کر دیا خودادر اب سرِ شوق ختم نہیں ہوتا شوق ہی بدگمان ہوتا ہے اُس طرف سے ستم کم نہیں ہوتا راستہ ہے کہ کٹتا جاتا ہے فاصلہ ہے کہ کم …

سوزِ حیات مانگ، غمِ جاودانہ مانگ (قابل اجمیری)

سوزِ حیات مانگ، غمِ جاودانہ مانگ اس جانِ مدعا سے مگر مدعا نہ مانگ آوازِ بازگشت بھی مشکل سے آئے گی غربت کو شرمسار نہ کر ہمنوا نہ مانگ خونِ جگر سے نقشِ تمنا بنائے جا اب زندگی سے فرصتِ ترکِ وفا نہ مانگ مے خانہ اک سراب، صنم خانہ اک طلسم کچھ ان سے …

جنونِ بے سروساماں کی بات کون کرے (قابل اجمیری)

جنونِ بے سروساماں کی بات کون کرے خزاں نہ ہو تو بیاباں کی بات کون کرے گلاب و نرگس و ریحاں کی بات کون کرے جو تم ملو تو گلستاں کی بات کون کرے مرے جنوں کا تماشہ تو سب نے دیکھ لیا تری نگاہِ پشیماں کی بات کون کرے ہمیں تو رونقِ زنداں بنا …

بہت نازک طبیعت ہو گئی ہے (قابل اجمیری)

بہت نازک طبیعت ہو گئی ہے کسی سے کیا محبت ہو گئی ہے نہیں ہوتی کہیں صرفِ تماشا نظر تیری امانت ہو گئی ہے کہاں اب سلسلے دار و رسن کے محبت بھی ندامت ہو گئی ہے غمِ دوراں کی تلخی بھی جنوں میں ترے رُخ کی ملاحت ہو گئی ہے خبر کر دو اسیرانِ …

حیرتوں کے سلسلے سوزِ نہاں تک آ گئے (قابل اجمیری)

حیرتوں کے سلسلے سوزِ نہاں تک آ گئے ہم نظر تک چاہتے تھے تم تو جاں تک آ گئے نامرادی اپنی قسمت گمرہی اپنا نصیب کارواں کی خیر ہو ہم کارواں تک آ گئے ان کی پلکوں پر ستارے اپنے ہونٹوں پہ ہنسی قصہ غم کہتے کہتے ہم کہاں تک آ گئے زلف میں خوشبو …