مدتوں ہم نے غم سنبھالے ہیں
اب تری یاد کے حوالے ہیں
زندگی کے حسین چہرے پر
غم نے کتنے حجاب ڈالے ہیں
کچھ غمِ زیست کا شکار ہوئے
کچھ مسیحا نے مار ڈالے ہیں
راہ گزارِ حیات میں ہم نے
خود نئے راستے نکالے ہیں
اے شب ِ غم ذرا سنبھال کے رکھ
ہم تری صبح کے اجالے ہیں
ذوقِ خود آگہی نے اے قابل
کتنے بت خانے توڑ ڈالے ہیں