روز تاروں کو نمائش میں خلل پڑتا ہے (راحت اندوری)

روز تاروں کو نمائش میں خلل پڑتا ہے

چاند پاگل ہے اندھیرے میں نکل پڑتا ہے

ایک دیوانہ مسافر ہے میری آنکھوں میں

وقت بے وقت ٹھہر جاتا ہے، چل پڑتا ہے

اپنی تعبیر کے چکر میں میرا جاگتا خواب

روز سورج کی طرح گھر سے نکل پڑتا ہے

روز پتھر کی حمایت میں غزل لکھتے ہیں

 روز شیشوں سے کوئی کام نکل پڑتا ہے

اس کی یاد آئی ہے، سانسو ذرا آہستہ چلو

دھڑکنوں سے بھی عبادت میں خلل پڑتا ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *