Category «راحت اندوری»

تیری ہر بات محبت میں گوارا کر کے (راحت اندوری)

تیری ہر بات محبت میں گوارا کر کےدل کے بازار میں بیٹھے ہیں خسارہ کر کے آتے جاتے ہیں کئی رنگ مرے چہرے پرلوگ لیتے ہیں مزا ذکر تمہارا کر کے ایک چنگاری نظر آئی تھی بستی میں اسےوہ الگ ہٹ گیا آندھی کو اشارہ کر کے آسمانوں کی طرف پھینک دیا ہے میں نےچند …

ہاتھ خالی ہیں تِرے شہر سے جاتے جاتے (راحت اندوری)

 ہاتھ خالی ہیں تِرے شہر سے جاتے جاتے جان ہوتی، تو میری جان لٹاتے جاتے اب تو ہر ہاتھ کا پتھر ہمیں پہچانتا ہے عمر گزری ہے تیرے شہر میں آتے جاتے اب کے مایوس ہوا ہوں یاروں کو رخصت کر کے جارہے تھے تو کوئی زخم لگاتے جاتے میں تو جلتے ہوئے صحراؤں کا …

لوگ ہر موڑ پہ رک رک کے سنبھلتے کیوں ہیں (راحت اندوری)

لوگ ہر موڑ پہ رک رک کے سنبھلتے کیوں ہیں اتنا ڈرتے ہیں تو پھر گھر سے نکلتے کیوں ہیں میکدہ ظرف کے معیار کا پیمانہ ہے خالی شیشوں  کی طرح لوگ اچھلتے کیوں ہیں موڑ ہوتا ہے جوانی کا سنبھلنے کے لیے اور سب لوگ یہیں آ کے پھسلتے کیوں ہیں نیند سے مرا …

روز تاروں کو نمائش میں خلل پڑتا ہے (راحت اندوری)

روز تاروں کو نمائش میں خلل پڑتا ہے چاند پاگل ہے اندھیرے میں نکل پڑتا ہے ایک دیوانہ مسافر ہے میری آنکھوں میں وقت بے وقت ٹھہر جاتا ہے، چل پڑتا ہے اپنی تعبیر کے چکر میں میرا جاگتا خواب روز سورج کی طرح گھر سے نکل پڑتا ہے روز پتھر کی حمایت میں غزل …

جا کے یہ کہہ دے کوئی شعلوں سے چنگاری سے (راحت اندوری)

جا کے یہ کہہ دے کوئی شعلوں سے چنگاری سے پھول اس بار کھلے ہیں بڑی تیاری سے اپنی ہر سانس کو نیلام کیا ہے میں نے لوگ آسان ہوئے ہیں بڑی دشواری سے ذہن میں جب بھی ترے خط کی عبارت چمکی ایک خوشبو سی نکلنے لگی الماری سے شاہزادے سے ملاقات تو ناممکن …

رات کی دھڑکن جب تک جاری رہتی ہے (راحت اندوری)

رات کی دھڑکن جب تک جاری رہتی ہے سوتے نہیں ہم ذمہ داری رہتی ہے جب سے تو نے ہلکی ہلکی باتیں کیں یار طبیعت بھاری بھاری رہتی ہے پاؤں کمر تک دھنس جاتے ہیں دھرتی میں ہاتھ پسارے جب خودادری رہتی ہے وہ منزل پر اکثر دیر سے پہنچتے ہیں جن لوگوں کے پاس …

جب کبھی پھولوں نے خوشبو کی تجارت کی ہے (راحت اندوری)

جب کبھی پھولوں نے خوشبو کی تجارت کی ہے پتی پتی نے ہواؤں سے شکایت کی ہے یوں لگا جیسے کوئی عطر فضا میں گھل جائے جب کسی بچے نے قرآں کی تلاوت کی ہے جانمازوں کی طرح نور میں اجلائی سحر رات بھر جیسے فرشتوں نے عبادت کی ہے سر اٹھائے تھیں بہت سرخ …

فیصلے لمحات کے نسلوں پہ بھاری ہو گئے (راحت اندوری)

فیصلے لمحات کے نسلوں پہ بھاری ہو گئے باپ حاکم تھا مگر بیٹے بھکاری ہو گئے دیویاں پہنچی تھیں اپنے بال بکھرائے ہوئے دیوتا مندر سے نکلے اور پجاری ہو گئے روشنی کی جنگ میں تاریکیاں پیدا ہوئیں چاند پاگل ہو گیا تارے بھکاری ہو گئے رکھ دیئے جائیں گے نیزے لفظ اور ہونٹوں کے …