لوگ ہر موڑ پہ رک رک کے سنبھلتے کیوں ہیں (راحت اندوری)

لوگ ہر موڑ پہ رک رک کے سنبھلتے کیوں ہیں

اتنا ڈرتے ہیں تو پھر گھر سے نکلتے کیوں ہیں

میکدہ ظرف کے معیار کا پیمانہ ہے

خالی شیشوں  کی طرح لوگ اچھلتے کیوں ہیں

موڑ ہوتا ہے جوانی کا سنبھلنے کے لیے

اور سب لوگ یہیں آ کے پھسلتے کیوں ہیں

نیند سے مرا تعلق ہی نہیں برسوں سے

خواب آ آ کے مرے چھت پہ ٹہلتے کیوں ہیں

میں نہ جگنو ہوں دیا ہوں نہ کوئی تارا ہوں

روشنی والے مرے نام سے جلتے کیوں ہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *