Monthly archives: January, 2020

زخم جھیلے داغ بھی کھائے بہت (میر تقی میر)

زخم جھیلے داغ بھی کھائے بہت دل لگا کر ہم تو پچھتائے بہت جب نہ تب جگہ سے تم جایا کیے ہم تو اپنی اور سے آئے بہت دیر سے سوئے حرم آیا نہ ٹُک ہم مزاج اپنا ادھر لائے بہت پھول، گل، شمس و قمر سارے ہی تھے پر ہمیں ان میں تمہیں بھائے …

غصے سے اٹھ چلے ہو تو دامن کو جھاڑ کر (میر تقی میر)

غصے سے اٹھ چلے ہو تو دامن کو جھاڑ کر جاتے رہیں گے ہم بھی گریباں پھاڑ کر دل وہ نگر نہیں کہ پھر آباد ہو سکے پچھتاؤ گے سنو ہو یہ بستی اجاڑ کر یا رب رہِ طلب میں کوئی کب تلک پھرے تسکیں دے کہ بیٹھ رہوں پاؤں گاڑ کر منظور ہو نہ …

دعا کرو کہ یہ پودا سدا ہرا ہی لگے (بشیر بدر)

دعا کرو کہ یہ پودا سدا ہرا ہی لگے اداسیوں میں بھی چہرہ کھلا کھلا ہی لگے وہ سادگی نہ کرے کچھ بھی تو ادا ہی لگے وہ بھول پن ہے کہ بے کلی بھی حیا ہی لگے نہیں ہے میرے مقدر میں روشنی نہ سہی یہ کھڑکی کھولو ذرا صبح کی ہوا ہی لگے …

چہرے پہ خوشی چھاجاتی ہے آنکھوں میں سرور آ جاتا ہے (ساحر لدھیانوی)

چہرے پہ خوشی چھاجاتی ہے آنکھوں میں سرور آ جاتا ہے جب تم مجھے اپنا کہتے ہو اپنے پہ غرور آ جاتا ہے تم حسن کی خود اک دنیا ہوشاید یہ تمہیں معلوم نہیں محفل میں تمہارے آنے سے ہر چیز پہ نور آ جاتا ہے ہم پاس سے تم کو کیا دیکھیں تم جب …

وہ پرسشِ حال کو آئیں گے بیمار کو یہ خوش فہمی ہے (عبد العزیز فطرت)

وہ پرسشِ حال کو آئیں گے بیمار کو یہ خوش فہمی ہے جذبات کی بے رونق دنیا میں کتنی گہما گہمی ہے اے گردشِ ساغر! گردشِ دورِ فلک سے مجھ کو خوف نہیں ایام کے چکر سے ڈرنا، ناشکری ہے، نافہمی ہے حوروں سے یہ جی بہلائے گا، کوثر سے یہ جام اڑائے گا میں …

یہ محو ہوئے دیکھ کے بے ساختہ پن کو (حیرت الہ آبادی)

یہ محو ہوئے دیکھ کے بے ساختہ پن کو آئینے میں خود چوم لیا، اپنے دہن کو کرتی ہے نیا روز مرے داغِ کہن کو غربت میں خدا یاد نہ لائے وطن کو چھوڑا وطن، آباد کیا ملکِ دکن کو تقدیر کہاں لے گئی یارانِ وطن کو کیا لطف ہے، جب مونس و یاور نہ …

غم سے بہل رہے ہیں آپ ، آپ بہت عجیب ہیں (پیر زادہ قاسم)

غم سے بہل رہے ہیں آپ ، آپ بہت عجیب ہیں درد میں ڈھل رھے ھیں آپ ، آپ بہت عجیب ہیں سایۂ وصل کب سے ھے ، آپ کا منتظر مگر ھجر میں جل رھے ھیں آپ ، آپ بہت عجیب ہیں اپنے خلاف فیصلہ خود ھی لکھا ھے ، آپ نے ہاتھ بھی …

زندگی یوں تھی ، کہ جینے کا بہانہ تُو تھا (احمد فراز)

زندگی یوں تھی ، کہ جینے کا بہانہ تُو تھا ھم فقط زیبِ حکایت تھے ، فسانہ تُو تھا ھم نے جس جس کو بھی چاھا , تیرے ھِجراں میں وہ لوگ آتے جاتے ھُوئے موسم تھے ، زمانہ تُو تھا اب کے کچھ دل ھی نہ مانا ، کہ پلٹ کر آتے ورنہ ھم …

یہ اخلاصِ گراں مایا بہت ہے(ساحر ہوشیار پوری)

یہ اخلاصِ گراں مایا بہت ہے تم آئے، دل کو چین آیا بہت ہے غمِ دل کو بہت راس آئے ہیں ہم غمِ دل ہم کو راس آیا بہت ہے فریبِ دشمناں ہم کھائیں گے کیا فریبِ دوستاں کھایا بہت ہے مبارک تم کو قصر و چترِ شاہی ہمیں دیوار کا سایا بہت ہے بہت …