اندھیری راہ میں مسافرکہیں نہ بھٹکا تھا (ادا جعفری)

اندھیری راہ میں مسافرکہیں نہ بھٹکا تھا

کسی منڈیر پہ جب تک چراغ جلتا تھا

وہ کتنی دور رہا فیصلہ بھی اس کا تھا

 مجھے تو قرب کے احساس نے سنبھالا تھا

یہی غبارِ شب و روز کا کمال بھی ہے

جو آنکھ دیکھ نہ پائی وہ دل نے دیکھا تھا

سفر تمام ہوا اور حیرتیں نہ گئیں

جو قربتیں تھیں وہاں فاصلہ بلا کا تھا

نہ جانے لوگ کہاں تھے زمانہ تھا کہ نہیں

زمیں پہ میں تھی  فلک پربس اک ستارہ تھا

یہی خطا کہ پجارن تھی اور نہ دیوی تھی

بڑی خطا تھی کہ خود کو بھی میں نے چاہا تھا

جو اذن ہو تو میں کچھ دیر اپنے پاس رہوں

کہا نہیں تھا یہ بس دل نے سوچا تھا

نہ آستاں  نہ  بام و درہی کوئی جی کو لگے

چلن سدا سے یہی سر پھری ہو اکا تھا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *