اُلجھی ہوئی راہوں کا شیدا نہ کہا جائے (قتیل شفائی)

اُلجھی ہوئی راہوں کا شیدا نہ کہا جائے
ہر ایک مسافر کو مجھ سا نہ کہا جائے

میں اس کے تغافل کی تردید نہیں کرتا
گو ایسا ہوا لیکن، ایسا نہ کہا جائے

یادوں کی رفاقت میں ہر لمحہ گزرتا ہے
مجھ کو کسی عالم میں تنہا نہ کہا جائے

دُکھ درد چھپانے کا، شاید یہ بہانہ ہو
جذبات کی چیخوں کو، نغمہ نہ کہا جائے

ایسے بھی کئی دل ہیں جو راز نہیں رکھتے
ہر ایک سمندر کو، گہرا نہ کہا جائے

رندوں کے مقدر پر، آنسو یہ گھٹاؤں کے
روتے ہوئے موسم کو، برکھا نہ کہا جائے

انساں کی پرکھ میں ہے سو بھول کا اندیشہ
اپنوں کو بھی عجلت میں اپنا نہ کہا جائے

دیتی ہے قتیلؔ اکثر چہروں کی چمک دھوکا
ہر کانچ کے ٹکڑے کو ہیرا نہ کہا جائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *