بات ساقی کی ٹالی نہ جائے گی
کر کے توبہ توڑ ڈالی جائے گی
آتے آتے ان کو آئے گا خیال
جاتے جاتے بے خیالی جائے گی
بے سبب اپنی جگر کاوی نہیں
عشق کی بنیاد ڈالی جائے گی
کچھ حیا کا بھی رہے شوخی میں پاس
ورنہ یہ نازوں کی پالی جائے گی
فصلِ گل آئی جنوں اچھلا جلیل
اب طبیعت کیا سنبھالی جائے گی