نگاہ برق نہیں چہرہ آفتاب نہیں
وہ آدمی ہے مگر دیکھنے کی تاب نہیں
جوابِ خشک سنوں ساقیا یہ تاب نہیں
شراب دے کہ نہ دے یہ نہ کہہ شراب نہیں
وہ اپنے عکس کو آواز دے کے کہتے ہیں
تِرا جواب تو میں ہوں مِرا جواب نہیں
مئے طور ہے رِندوں ہی کے لیے اے شیخ
وہ کیا پیے گا جسے لذتِ شراب نہیں
جلیل سے بھی ملو مل کے خوش بہت ہو گے
خراب حال تو ہے آدمی خراب نہیں