وصل میں وہ چھیڑنے کا حوصلہ جاتا رہا (جلیل مانک پوری)

وصل میں وہ چھیڑنے کا حوصلہ جاتا رہا

تم گلے سے کیا ملے سارا گلہ جاتا رہا

یار تک پہنچا دیا بیتابئی دل نے ہمیں

اک تڑپ میں منزلوں کا حوصلہ جاتا رہا

ایک تو آنکھیں دکھائیں پھر یہ شوخی سے کہا

کہیے اب تو کم نگاہی کا گلہ جاتا رہا

روز جاتے تھے خط اپنے روز آتے تھے پیام

ایک مدت ہوگئی وہ سلسلہ جاتا رہا

رو رہے تھےدل کو ہم یاں ہوش بھی جاتے رہے

گمشدہ یوسف کے پیچھے کارواں جاتا رہا

مڑ کے قاتل نے نہ دیکھا وار پورا ہو گیا

کشتگانِ نیم بسمل کا گلہ جاتا رہا

وادئی غربت کے ساتھی ہیں ہمیں دل سے عزیز

رو دیئے ہم پھوٹ کر جب آبلہ جاتا رہا

بے خودی میں محوِ نظارہ تھے ہم کیوں چونک گئے

ہائے وہ اپنا مزے کا مشغلہ جاتا رہا

کیا مہذب بن کے پیش یار بیٹھے ہیں جلیل

آج وہ جوشِ جنوں وہ ولولہ جاتا رہا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *