اسی لیے میرا سایہ مجھے گوارا نہیں (عباس تابش)

اسی لیے میرا سایہ مجھے گوارا نہیں

یہ میرا دوست ہے لیکن  مرا سہارا نہیں

یہ مہر و ماہ بھی اخر کو ڈوب جاتے ہیں

ہمارے ساتھ کسی کا یہاں گزارا نہیں

ہر ایک لفظ نہیں تیرے نام میں شامل

ہر ایک لفظ محبت کا استعارہ نہیں

تمہی سے چلتے ہیں سب سلسلے تعلق کے

وہ اپنا کیسے بنے گا کہ جو ہمارا نہیں

اور اب برہنگی اپنی چھپاتا پھرتا ہوں

مرا خیال تھا میں خود پہ آشکارا نہیں

ابھی میں نشئہ لا حاصلی میں رہتا ہوں

ابھی یہ تلخئی دنیا مجھے گوارا نہیں

لیے تو پھرتا ہوں آنکھوں میں ناتمام سانقش

اسے مٹاؤں گا کیسے جسے ابھارا نہیں

زمیں کا حسن مکمل نہ ہو سکا تابش

کہیں چراغ نہیں ہے، کہیں ستارا نہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *