کیا کیجے غم اپنا بیاں ہو نہیں سکتا (جلیل مانک پوری)

کیا کیجے غم اپنا بیاں ہو نہیں سکتا

چپ ہو رہوں یہ بھی مِری جاں ہو نہیں سکتا

فرما گئے وہ دے کے مجھے داغِ جدائی

یہ پھول کبھی نذرِ خزاں ہو نہیں سکتا

حق یہ ہے کہ دیدار کو درکار ہیں آنکھیں

ہونے کو تِرا جلوہ کہاں ہو نہیں سکتا

زاہد سے کہو خدمتِ مے چاہیے برسوں

دو دن میں کوئی پیرِ مغاں ہو نہیں سکتا

تم دیکھ لو خود ہاتھ مِرے سینے پہ رکھ کر

حالِ دلِ بے تاب بیاں ہو نہیں سکتا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *