امانت محتسب کے گھر شرابِ ارغواں رکھ دی
تو یہ سمجھو کہ بنیادِ خراباتِ مغاں رکھ دی
یہاں تک تو نبھایا میں نے ترکِ مے پرستی کو
کہ پینے کو اٹھالی اور لیں انگڑائیاں ، رکھ دی
جنابِ شیخ مے خانے میں بیٹھے ہیں برہنہ سر
اب ان سے کون پوچھے آپ نے پگڑی کہاں رکھ دی
تمہیں پروا نہ ہو مجھ کو تو جنسِ دل کی پروا ہے
کہاں ڈھونڈوں کہاں پھینکی ، کہاں دیکھوں کہاں رکھ دی
لگا لیں گے اسے اہلِ وفا بے شبہ آنکھوں سے
اگر پائے عدو پر اس نے جانِ آستاں رکھ دی