Category «سائل دہلوی»

وفا کا بندہ ہوں الفت کا پاسدار ہوں میں (سائل دہلوی)

وفا کا بندہ ہوں الفت کا پاسدار ہوں میں حریفِ قمری و پروانہ و ہزار ہوں میں جدا جدا نظر آتی ہے جلوہ کی تاثیر قرار ہو گیا موسیٰ کو بے قرار ہوں میں شباب کر دیا میرا تباہ الفت نے خزاں کے ہاتھ کی بوئی ہوئی بہار ہوں میں سما گیا ہے یہ سودا …

ہنسی ، دل لگی ، مہ جبیں ہو چکی (سائل دہلوی)

ہنسی ، دل لگی ، مہ جبیں ہو چکی نہیں اب نہ کہنا ، نہیں ہو چکی سنا ہے تِرے خیر مقدم کی عید کہیں آج ہے کہیں کل ہو چکی ہوئی عشق کی بات ازل ہی میں طے وہیں ہونے والی وہیں ہو چکی مکرر گزارش پہ بولا وہ شوخ نہیں کہہ دیا بس …

نہیں ہے تابِ ضبطِ غم کسی عاشق کے امکاں میں (سائل دہلوی)

نہیں ہے تابِ ضبطِ غم کسی عاشق کے امکاں میں دلِ خوں گشتہ یا دامن میں ہو گا یا گریباں میں ہمیشہ پے کے مے جام و صراحی توڑ دیتا ہوں نہ میرا دل ترستا ہے نہ فرق آتا ہے ایماں میں مزہ کیوں کاوشِ زخمِ جگر کا آج کم کم ہے نمک کی کوئی …

ملے غیروں سے، مجھ سے رنج، (سائل دہلوی)

ملے غیروں سے، مجھ سے رنج، غم یوں بھی ہے اور یوں بھی وفا دشمن، جفا جو کا ستم یوں بھی ہے اور یوں بھی تم آؤ مرگِ شادی ہے ، نہ آؤ مرگِ ناکامی نظر میں اب رہِ ملکِ عدم یوں بھی ہے اور یوں بھی مجھے باور ہے تم جھوٹے نہیں ، وعدے …

حق و ناحق جلانا ہو کسی کو تو جلا دینا (سائل دہلوی)

حق و ناحق جلانا ہو کسی کو تو جلا دینا کوئی روئے تمہارے سامنے تو مسکرا دینا تردد برق ریزوں میں تمہیں کرنے کی کیا حاجت تہمیں کافی ہے ہنسنا، دیکھ لینا، مسکرا دینا تکلف برطرف کیوں پھول لے کر آؤ تربت پر مگر جب فاتحہ کو ہاتھ اٹھانا مسکرا دینا ہوئی بجلی سے کس …

امانت محتسب کے گھر شرابِ ارغواں رکھ دی (سائل دہلوی)

امانت محتسب کے گھر شرابِ ارغواں رکھ دی  تو یہ سمجھو کہ بنیادِ خراباتِ مغاں رکھ دی یہاں تک تو نبھایا میں نے ترکِ مے پرستی کو کہ پینے کو اٹھالی اور لیں انگڑائیاں ، رکھ دی جنابِ شیخ مے خانے میں بیٹھے ہیں برہنہ سر اب ان سے کون پوچھے آپ نے پگڑی کہاں …

اس کو کہتے ہیں قناعت قول یہ سائل کا ہے (سائل دہلوی)

اس کو کہتے ہیں قناعت قول یہ سائل کا ہے گوہرِ شہوار تبخالہ لبِ ساحل کا ہے آپ یہ سمجھتے ہیں کہ گویا تیر مارا آپ نے ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ جذبہ ہمارے دل کا ہے  دوستوں کی اشک شوئی سے مجھے کیا فائدہ ان کو آنکھوں کی پڑی ہے مجھ کو رونا …

فصلِ گل اب آ گئی وحشت کا ساماں دیکھیے (سائل دہلوی)

فصلِ گل اب آ گئی وحشت کا ساماں دیکھیے سنگِ طفلاں دیکھیے خارِ مغیلاں دیکھیے  دعوئی آہن گدازی گر مِرا باور نہیں تیر کچھ دل میں چبھو کر اُن کے پیکاں دیکھیے کیوں کسی سے پوچھیے خستہ سری کا ماجرا قُفل کھُلوا کردر ودیوارِ زنداں دیکھیے جانیے آسیبِ ہستی سے اُسی کو مطمئن ذرہ ذرہ …